Tuesday, August 24

کیا حل پیش ہو

سیالکوٹ میں ہونے والا انسانیت کا قتل ، جس پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے ۔۔ مگر صرف افسوس کرنا کافی نہیں نا بس شرمندہ ہونا

یہ عجب واقعی کیوں پیش آیا اس کی ایک فہم تشریح جوابات کی شکل میں سر اجمل نے اپنی تحریر میں فرمائی ہے ۔

یہ ہمارا معاشرہ کچھ پروان ہی ایسا چڑھا ہے کہ اس سے لوجیکل جیسچر کی امید فوراّ رکھی نہیں جاسکتی ۔۔ حق کی سچ کی چینج کی بات جو گر کوئی کرے یہاں تو اکثر اس کو پاگل جزباتی کہ کر ٹال دیا جاتا ہے ۔

اللہ تعلی نے قرآن ہم سب کے لیے اتارا ہے تاکہ ہم اس کو خود پڑھیں اور سمجھیں ، عمل کریں ۔۔

یہاں ہم اپنے صحت کے معاملے میں تو ایک اچھے ایم بی بی ایس سے کم درجے کے کسی ڈاکٹر کو ترجیح نہیں دینگے ۔۔ مگر دینی معاملات کی مشاورت ہم کسی میٹرک پاس مولوی سے تصلی سے کر لینگے

ہم مسلمان ، ہم سب کا کردار و اسلام کی سمجھ اتنی تو ہونی چاہیے کہ وقت آئے تو جنازہ کی نماز بھی خود پڑھا لیں ۔۔ نکاح بھی ۔۔ مگر کچھ ایسے مواقع پر مولوی صاحب کو بلایا جاتا ہے

ہم نے اس ملک کو تعلیمی اعتبار سے درست پروان چڑھایا اور نا دینی ۔۔ جہاں ٹیچرز سفارشوں سے تعنیات ہوتے رہے جہاں گھر کا میٹرک فیل بچا مدرسہ جا کر مولوی بنتا رہا ۔۔ وہاں کا عمومی معاشرہ کچھ ایسا نہیں ہوگا تو کیسا ہوگا ! ۔۔

معاشرہ بڑا لائیق، سمجھدار ۔۔۔ اور سوشل ہوگا ؟

اب ایسے میں کوئی بھی لکھنے بیٹھے تو بہت سے باتیں لکھ لے ۔۔ بہت سے خرابیاں بیاں ہو جائیں ۔۔ پر بات ہے کسی حل کی

حل جو میرے پاس مکمل ہے نہیں ۔۔ آپ ہمارے ڈھٹائی والے لیول کا اندازہ زرا اس بات سے لگا لیں کہ میڈیا پر خبر جانے کے بعد اس گاوں کے قاتل لوگوں نے ١١٢٢ کے دفتر کے باہر بینر ایوازا یو کر رکھے ہیں کہ ہم نے تو پڑا نیک کام کیا ہے ڈاکو مارے ہیں ۔۔ مرنے والے ڈاکو تھے کے بینر دیکھے میں نے ٹی وی پر

جس آرٹسٹ نے وہ بینر لکھے ۔۔ میں اس کو کہی ملوں تو یہ پوچھوں ضرور کہ تم نے پچاس روپے کے لیے یہ کیسے کر لیا ؟

ایسے لوگوں کے لیے کیا کوئی حل پیش ہو !  ۔

Sunday, August 22

اور انصاف ہوگیا

مارنے والے بھی یہی کے انسان ہیں ۔۔ مار کھانے والے اور مرنے والے بھی یہی کے انسان ۔۔ اور دیکھنے والے بھی یہی کے ۔۔ میں خود کو اب کس طرف کا سمجھوں ۔۔ ! !

یہ انسانیت کے ساتھ ہونے والی حرکت اس کے بارے میں کیا سوچیں ! ! ۔۔ آگے سیلاب ، مہنگائی ، کرپشن ان سب سے گھرے ہوے ہم اب اور کیا جتائیں کہ ہم سے یہ کیا زیادتی ہو رہی ہے

ہم سب بھی جو اپنی اپنی جگاہ پرگر چپ بھی بیٹھے ہیں ہم بھی اس قتل میں برابر کے شریک ہیں ۔

اب ہوسکتا ہے یہ فلم بھی جعلی نکلے ۔۔ پراپوگنڈا یا کوئی بنائی گئی فلم ہو ۔۔ پر ہم عوام ہے تو ایسے ہی جن کو خون دیکھ کر مزا آتا ہے ، موبائیل سے فلم بنانے کا فن تک آتا ہے

ٹھیک ہی تو ہے ۔۔ ہم جیسی عوام کے ساتھ قدرت کو بھی رحم سے پیش نہیں آنا چاہیے ۔۔ رمضان کے با برکت مہینے میں یہ مسلمان اور پاک افراد نے جو حرکت کی ہے اس کے بعد اب بس عزاب کا انتظار ہی رہ گیا ہے ۔

کوئی افسوس نہیں گر ہم عوام آج جن حالات میں ہیں اٍسی حالات کے مستحق ہیں ۔۔ ہمارے جسٹس کے چیف نے تو جیسے دو افراد کو برطرف کر کے انصاف کا حق ادا کر دیا ، تو ہوگیا ہوگا ادا ۔۔ اور ہوگیا ہوگا انصاف ۔۔ مگر میرے لیے ہم سب مجرم اور سزا کے حق دار ہیں جو طالبان کے ظلم پر تو فیچر بنائینگے مگر اپنی درندگی پر صرف افسوس کرینگے ۔

کوئی مقتدمہ درج کرے یا نا کرے ۔۔ ہم سب پر وہاں موجود دیکھنے اور فلم بنانے والوں پر دفا ٣٠٢ کا اطلاق ہوتا ہے ۔۔ چاہے اپنی بے باق شرافت میں ہم تھانے جائے نا جائیں ۔۔ ہم شریک جرم ہیں ۔