Wednesday, August 19

! سرمایہ دار بس سرمایہ دار ہیں

.

میں ابھی زندگی کے نشیب و فراز سمجھ رہا ہو اور میری کوئی زیادہ عمر ہے نا ہی تجربہ پر کچھ اصول ہیں بس جو مجھے لگتا ہے کہ درست ہیں ۔۔ لگتا ہے ۔۔ مطلب کنفرم نہیں ہے ۔۔ کیونکہ بندہ گر اپنے آپ سے اپنا اندازہ لگوائے تو جواب ہمیشہ مثبت ہی آئے گا ۔

چینی کی مہنگائی و کریک ڈاون روکے جانے ہر پر وزرا کا بیان کچھ یوں آیا ہے کہ رمضان ہو یا کچھ بھی ۔۔۔ سرمایہ دار بس سرمایہ دار ہے وہ نا مسلمان ہیں نا پاکستانی نا کچھ اور بس سرمایہ دار ۔۔ سو اس سوال کا جواز نہیں کہ روزے رکھے کوئی جھوٹ کیوں بول رہا ہو ۔

وزیر کا یہ جملہ کے سرمایہ دار بس سرمایہ دار ہے ۔۔ یعنی بزنس مین ہے بس ۔۔ میری اپنے تجربات بھی کچھ ایسی ہی گواہی دیتے ہیں ۔

کمپیوٹر کا بندا ہوں کمپیوٹر منڈیوں کے بھاو و معیار و کردار کو سمجھتا ہوں کمپیوٹر مارکیٹ میں گاہک ہمیشہ اس امید پر آتا ہے کہ دکان دار اس سے زیادہ جانتا ہے سو وہ اس کو اچھی طرح گائیڈ کرے گا ۔ دکان دار اس کو ایک اچھا کمپیوٹر بنا کر دے گا ۔۔ پر یہ امید کتنی پوری ہوتئ یہاں کا کمپیوٹر گاہک اچھی طرح جان جاتا ہے ۔

٨٠ فیصد کمپیوٹر دکان دار ہمیشہ گاہک کو پہلے وہ چیز پکڑا دیتے ہیں جو ان کی دکان پر بٍک نا رہی ہو ۔۔ اور جھوٹ بول کر بیچ دیتے ہیں ۔۔ کہ یہ معیاری چیز ہے اور جو گاہک مانگ رہا ہے وہ معیاری نہیں یا ان کے پاس ہے ہی نہیں ۔

ہمارا مزہب اسلام تاکید کرتا ہے ہم سے کہ ہم آنے والے گاہک کو ہمیشہ اچھی چیز دیں ۔۔ پرانی پڑی چیز سے نئی چیز دیں ۔۔ پر یہاں ہمارے مزہب کے ایک اعلی معیاری فعل کو کبھی اپنانا کوئی ضروری نہیں سمجھتا ۔

ایسا کیوں ہوتا ہے یہاں ؟

جواب سب جانتے ہیں ۔۔ بزنس مین کو غرض یہاں صرف بزنس سے ہے ۔۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی اعلی سے اعلی فرنگی تعلیم بھی اور کچھ نہیں بس ایک اعلی غلام ( جاب ہولڈر ) و بزنس مین بن نا سکھا رہی ہے ۔۔ دین جو ایک اچھا و کامل انسان بن نے کی مکمل تعلیم دیتا ہے ، اس پر تو ہم نے تقریباّ انتہا پسند پیدا کرنے کی مہر لگا دی ۔

پھر لوگ کہتے ہیں کہ بھیا پیٹ لگا ہوا ہے ۔۔ سودے بازی نہیں کرینگے تو کھائینگے کہا سے ۔۔ ہمارے قائد اعظم محد علی جناح کے اصولوں کی تعریف آج بھارتی کر رہے ہیں جس کی سزا بھی ان کو مل رہی ہے ۔۔ اور ہم جو ایک دوسرے کو صوبوں کی حدوں سے پہنچان نے کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔ قائید کے اصولوں کو کب اپنائینگے ۔

اللہ کی زات پر یقیں مدھم چکا شاید جو پتھر میں کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے ۔۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے نئی آنے والی نصل ہماری چل رہی نصل کے بزنس اصولوں کو نا ہی اپنائے ۔۔ ورنہ ہم نام کے مسلمان ایک دن نام کے بھی نہیں رہیں گے ۔

اللہ اس رمضان ہم کو ایک مکمل ضابطہ حيات اپنانے کی توفیق دے

2 comments:

  1. جس فرنگی کی آپ نے مثال دی ہے کم از کم وپ اپنے دیسوں میں ایسا نہیں کرتے کیونکہ وہاں قوانین سخت ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ہم جیسے دیسوں کو الو بنا رکھا ہے لیکن وہ بھی اپنے ذاتی مفاد کیلیے۔ ہمارے ہاں اس دن سب چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی جس دن کسی حکمران نے خلوص دل سے کوشش کی۔
    لگے ہاتھوں املا کی غلطیاں کی نشاندہی صرف آپ کی اصلاح کیلیے۔
    بندہ، ہمیشہ، پرانی، فعل،قائدورنہ، ضابطہ

    ReplyDelete
  2. بات گھما پھرا کر حکمرانوں پر ہی آجاتی ہے ۔۔ بہت صحیح ہی کہا گیا ہے کہ انسان بڑوں سے انسپائیر ہوا ہوتا ہے ۔۔ ہمارے بڑے تو پھر یہ بڑی بڑی پیجاروں میں گھوم رہے ہیں اور پرائویٹ جہازوں میں اڑ کر کبھی اٍدھر تو کبھی اّدھر

    املا کی درستگی کے لیے شکریہ

    ReplyDelete