Sunday, May 3

Freedom

ہم ایک آزاد قوم ہیں

آزادی ہے جھوٹ بولنے کی

آزادی ہے فریب کرنے کی

آزادی ہے بددیانتی کرنے کی ، ملاوٹ کرنے کی ۔۔ جعلسازی کی

آزادہ ہیں ہم ۔۔۔ فرشتے نہیں

اور آج آزادیے صحافت کا دن ہیں ۔۔ واہ کیا خوب دن ہے پر ابھی رات ہو چکی ۔۔

9 comments:

  1. فریب اور دھوکے کے لیے تھوڑی دیر کو اپنی انکھیں بند کر لو اور سمجھ لو کہ ہم آزاد قوم ہیں ۔ کیونکہ اگر آزادی اس کا نام ہے تو قید کس کو کہتے ہیں ۔ ریحان جی

    ReplyDelete
  2. تانیہ رحمان ۔۔۔۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں کافی دیر سوچتا رہا کہ آپ نے تبصرہ کیا ہے کہ نکر لگائی ہے پر خیر

    اپنی خواہشات کو ناحق قربان کر دینے کی قید ۔۔۔

    ایک کام کو نا کرنے کے لیو سو بہناے بنانے کی قید ۔۔۔

    قید و زن میں رہتے ہوے بھی خود کو بڑا آزاد سمجھنے کی قید

    ReplyDelete
  3. کوئی صاحب سڑک پہ پیدل چلنے والوں کا اشارہ سبز ہونے پہ زیبرا کراسنگ سے خراماں خراماں بازو ہلاتے گزرنے لگے۔ تو انکا ہاتھ سامنے سے آتے ہوئے دوسرے راہگیر کی ناک پہ پڑا۔ تو اس پہلوان نما راہ گیر نے آؤ دیکھا نا تاؤ اس ساحب کو دو تین طماچے جڑ دیے لوگوں نے بیچ بچاؤ کرواتے ہوئے جھگڑے کی وجہ جانی چاہی۔ تو پہلوان راہگیر نے کہا اس بدتمیز آدمی نے میری ناک پہ اپنا ہاتھ دے مارا ہے۔ لوگوں نے دوسرے صاحب سے استفسار کیا تو وہ صاحب فرمانے لگے میں جمہوری آدمی ہوں اور آزادی سے اپنے بازو ہلاتے سڑک کراس کر رہا تھا کہ اس پہلوان نے مجھے دو تین تھپڑ دے مارے ہیں۔

    پہلوان راہگیر نے برجستہ جواب دیا، اس بے وقوف کو یہ بتاؤ۔ کہ

    "جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔ وہاں اس کی جمہوریت اور آزادی ختم ہوجاتی ہے۔"


    ریحان صاحب!
    آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے

    ReplyDelete
  4. بہت زبردست ۔۔۔ گوندل بھائی ۔۔ میں تو اس پر یہی خیال رکھتا ہو کہ ۔۔ انسان کو تھوڑا خود خیال کرنا چاہیے اور ۔۔۔ آپ بتائیے گا کبھی کے کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا کچھ ہوا کہ آزادی رائے مجروہ ہوی ہو یا اور کچھ

    ReplyDelete
  5. محترم !
    بارہا دفعہ۔
    نہ صرف آزادیِ اظہار رائے سے بلکہ بزات> خود آزادی جیسی نعمت سے بھی۔

    عشق۔

    اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔
    کچھ ایسی صورتحال رہی ۔

    ReplyDelete
  6. یہ مادر پِدر کیا ہوتا ہے ؟ ۔۔ تھوڑا تفصیل سے بتا دیتے تو مجھ جیسے بے وقوف کو سمجھہ آجاتی

    پر پھر بھی شکریہ جمال سر

    ReplyDelete
  7. محترم ریحان بھائی!
    مادر پدر آزاد فارسی کی ضرب المثل ہے۔ جس کا اطلاق ان لوگوں یا گروہوں اور قوموں پہ کیا جاتا ہے جو اخلاق باختہ ہوں اور جنہیں نہ اپنے ماں باپ کی عزت عزیز ہو اور نہ دوسرے کے ماں باپ کی عزت عزیر ہو۔ کیونکہ کسی کے مان باپ کو دی گئی گالی کا جواب گالی دیناے والے کے ماں باپ کو گالی کی صورت میں آتا ہے تو دوسرے لفظوں میں گالی دینے والا اپنے ماں باپ کو گالی دے رہا ہوتا ہے۔

    اجمل صاحب کی مادر پدر سے مراد یہاں ۔نزیر ناجی۔ ہے کہ جسے نہ اپنی عزت کا پاس ہے نہ دوسروں کی عزت کا لحاظ ہے ۔

    ReplyDelete
  8. بہت شرکریہ گوندل بھائی آپ نے بہت جواب دیا ۔۔

    ReplyDelete