Saturday, May 23

سوال

پاکستان میں شک و شعبہ کے بنیاد پر کوئی بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔۔ ہمارے آئین میں ہے تو کیا یہ قانون اسلامی ہے ؟

9 comments:

  1. پتا نہيں، آپ ہی بتائيں....

    LAHORE: Five Ahmadis detained on charges of blasphemy in Layyah district have been held without virtually any proof or witnesses, the Human Rights Commission (HRCP) said on Thursday.www.hrcp-web.org/print.cfm?proId=685

    ReplyDelete
  2. کس کو بتائیں جی ان کو جو اپنی شناخت چپھاتے ہیں ۔۔ خیر ۔۔ ہم کو خود نہیں کنفرم سو ہی سوال لکھا ہے

    ReplyDelete
  3. And those who are denier of Khatm-Nabuwat i thnk it worth a proof on it self but .. sorry if that hurts

    ReplyDelete
  4. آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ بلاس فَیمی کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں

    جو شخص اپنی پہچان نہ بتائے وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ اس کا تبصرہ حذف کر دینا چاہیئے

    ReplyDelete
  5. ہمارا کونسا قانون اسلامی ہے؟

    ReplyDelete
  6. شک و شبی کی بنیاد پر کسی کو گرفتار تو کیا جا سکتا ہے مگر اُسے اپنے دفاع کا مکمل اختیار ہے اور گرفتار کرتے وقت اُسے بتایا جاتا کس الزام میں پکڑ رہے ہیں! یا کہ وہ اپنے دفاع کے انتظام کر سکے۔۔۔
    یہ اسلام کے خلاف نہیں ہے!
    اور یہ نامعلوم بندہ اپنے نام و فون نمبر کے ساتھ تبصرہ کرتا تو میں اس کے سوال کا جواب دیتا!!!

    ReplyDelete
  7. مجھے موڈیریشن زرا شوق نہیں نا مجھ کو یہ پسند ہے ۔۔ پر اپنی شناخت چھپانے والے کے لیے اتنا ہی عرض ہے گر کوئی اتنا ہی سچا اور حق پر ہے تو ڈرتا کس سے ہے ۔۔ موت سے یا اپنے آپ سے ۔۔ سوال ہی سوال رہ جاتے ہیں بس

    جناب کوئی احمدی صاحب ہے تو جناب آپ کا دوبارہ کچھ تحریر کرنے کو دل کرے تو شناخت کے ساتھ کریں یا پھر اپنا بلاگ بنائے اور اپنے بینان کی پیروکاری یو جو کرنا ہے وہ کریں

    ReplyDelete
  8. یوروپ کے تمام ملکوں میں ایسے قوانین موجود ہیں۔ جن قوانین کے تحت کسی مشکوک شخص کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ اور کسی جرم کا شک ہونے پہ بھی ملزمان کو گرفتار کر کے باقاعدہ جیل بیجھا جاسکتا ہے۔ خواہ بعد میں عدالتی ٹریبونل انہیں بے قصور قرار دے کر رہا کر دے۔

    اور بعض ممالک میں تین دن اور بعض میں تین دن سے زیادہ پولیس، جوڈیشنل ریمانڈ کے طور پہ کسی مشکوک کو حوالت میں بند کر سکتی ہے اور بہتر گھنٹے پورے ہونے پہ پولیس کو مشکوک افراد پہ فرد جرم عائد کر کے ڈیوٹی پہ جج کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ اور چونکہ کبھی کبھار فرد جرم بے سروپا ہونے کی وجہ سے جج گرفتار افراد کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس افسران کو ڈانٹ بھی پلا دیتے ہیں۔ اسلئیے عام طور پہ پولیس دپارٹمنٹ عام طور پہ مجرم ذہن لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئیے انھیں عموماً اڑتالیس گھنٹے سے قبل ہی رہا کر دیتے ہیں۔

    دہشت گردی روکنے کے نامی کلیے نے تو خیر اب پولیس کو یوروپ میں بھی بہت سی چھوٹ دے رکھی ہیں۔ اور اس کا شکار کبھی کبھار بے قصور بھی ہوجاتے ہیں اور بعض افراد تو دو دوسال تک جیلوں میں پڑے رہنے کے بعد عدم ثبوت یا ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے مقدمہ نہ لگنے کی مدت پوری ہونے پہ جیلوں سے رہائی ملتی ہے

    ReplyDelete