Saturday, April 18

رنگ برنگے ہم

میں گھر سے زیادہ باہر نہیں جاتا ۔۔ بس کام ہو تو ہی فقت ہم نکل پڑتے ہیں ۔۔ اور کیا دیکھتے ہیں ۔۔ لوگ سب کام کر رہے ہوتے ہیں بشمول اس کے جو کام وہ کرنے نکلے ہوتے ہیں ۔۔ تجربات کی باتیں تو ایسے جیسے کے عمر کے آخری دریچے پر ہو اور وہی تب چپ رہتے ہے جب یونیورسٹی یا کالج کے سر لیکچر ختم ہونے پر کہے کہ کیا کوئی سوال ہے ۔

پریکٹیکل تعلیکم سے کوسو دور تھیوریکل تعلیکم میں ہی پی ایچ ڈی لے لیتے ہیں ۔۔ واقعی میں جانتا ہو ایسے پی ایچ ڈی اور ایم ایس سی والوں کو جو میک اور پی سی کے فرق سے واقف نہیں ہے ۔۔۔ ایم بے اے کرنے والے کمپیوٹر چلانے سے تقریباّ ناواقف ۔۔۔ اور تو اور ماسٹرز کرنے والے اپنے تھیسز اور ریسیرچز کسی اور سے کرا رہے ہوتے ۔۔ میرے اپنے ہا تھوں نے بھی چند انٹیرشپ رپورٹس اور تھیسس تیار کیے ہیں جبکہ میرا تو دور دور تک اس فارمل سٹیڈیز سے کوئی تعلق نہیں ۔

سو کہنا پوچھنا کیا اب ۔۔ بس جتانا ہی ہے کہ ۔۔ لوگ وہ کام ہی کیوں پکڑتے ہیں جو وہ کر نہیں سکتے ۔۔ کیوں ۔۔ دوسروں کو دیکھ کر ۔۔۔ تو یا پھر میں غلط سوچتا ہو ۔۔ یا پھر یہ سب سے بڑی بے وقوفی ہے ۔۔ کہ اللہ تعلی نے پیدا ہم کو ایک منفرد صلاحیت کے ساتھ کیا اور ہم اس صلاحیت کو تراشنے کے بجائیں دوسروں کو دیکھتے ہوے اپنے راستے چنے ۔۔ تعلیم کے چاہے کام کے ۔

اور یہ میں کوئی طالبان کے پاکستان کا زکر نہیں کر رہا ۔۔ ہمارے پاکستان کا کر رہا ہو ۔۔ باہر ممالک کے بارے میں جو جانتا ہو تو یہ کہ وہا گر ٣ لوگو کی کمیونٹی میں گر کوئی ایک جھوٹ بولتا ہو تو چاہے وہ چھوٹا سا جھوٹ ہی کیوں نا ہو تو اس سے دوسرے ایک دم سے ناتا توڑ لیتے ہیں کہ ہائے یہ جھوٹا ہے ۔۔ یہ میں ان باہر والوں کی بات کر رہا ہو جن کا تو کوئی دین ایمان بھی نہیں ہوتا ۔۔ جبکہ ہمارے ہاں ایمان والے ۔۔ جھوٹ ۔۔ جتنے زیادہ پڑھے لکھے ہو اتنا ہی اخیر طریقہ سے جھوٹ بولتے ہیں ۔۔۔ جھوٹے کو کمیونٹی میں بھی اونچا مقام ملا ہوتا ہے اور سیاست میں بھی ۔۔ اور یہ بات میں اپنے زندگی کے تجرہ سے لکھ رہا ہو ۔

گھر سے جھوٹ شروع ہوتا ہے یہاں جب بچا چند بچگانے سوال کرتا ہے اور پھر جھوٹ بھی سات سات پلپتا ہے

ہم جو یہاں طالبانوں کے ٹینشن لیے بیٹھے ہیں ۔۔ کیا کہے ۔۔ بڑا کوئی صاف اور ایماندار معاشرہ ہے نا اپنا جس کو کوئی چند نام نہاد طالبان خراب کر ہے ہیں ۔

4 comments:

  1. محترم!
    ہمارے ہاں تعلیم کا معیار انتہائ پست ہے۔ پاکستان کے ذمہ دار افراد سے میر ا یہ سوال اکثر رہا ہے کہ آپ ماضی یا حال کی کوئی ایک قوم بتادیں جس نے بغیر علم و تحقیق کے ترقی کی ہو۔؟


    ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی پہلی چھہ سو بہترین جامعات میں مسم دنیا کی صرف دو یونیورسٹیز آتی ہیں جو ترکی کی ہیں ۔ پاکتسان کی جامعات ( یونیورسٹیز ) سالانہ معدودے چند یعنی چند درجن پی ایچ ڈاکترز تیار کرتی ہیں اور ان میں بھی ایک بہت بڑی اکثریت لٹرریسی مضامین پہ تحقیق کرتے ہیں ۔ سائینس اور ٹیکنالوجی میں بہت کم لوگ تحقیق کرتے ہیں۔ اور پھر جب ان پروفیسر ڈاکٹرز کو کسی ادارے کا کوئی شعبہ مخصوص کیا جاتا ہے تو پروفیسر کے ارد گرد اسقدر ملازمین اور ہٹو بچو کا نقارہ بجانے والے نقیب ہوتے ہیں جو کسی کو ان کے پاس نہیں جانے دیتے اور پروفیسر ڈاکٹر کو ایک محقق سے کچھ ہی دنوں میں بیور کیٹ میں تبدیل کر دیتے ہیں اور نبیوں کی سنت علم سکھانا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ اور ایسے ُپی ایح ڈی حضرات سے ملاقات اور تبادلہ خیالات یا تبادلہ معلومات پہ سر پیٹ لینے کو دل کرتا ہے اور افسوس ہوتا ہے کہ ملک کے انتہائی زمہ دار عہدوں پہ کتنے بوگس لوگ قبضہ کئیے ہوئے ہیں۔


    اور جن لوگوں کو حکومت خظیر سرمایہ لگا کر مغربی ممالک سے اعلٰی تعلیم کے لئیے بیجھتی ہے ان میں سے اکثر وہیں کے ہو رہتے ہیں اور ہمارے ہاں انھیں واپس لینے اور اپنے اداروں میں زمہ داریاں تفویض کرنے کا رواج اور چلن نہیں۔جوہر قابل صرف دو وجہ سے دوسرے ممالک کو بہہ جاتا ہے۔ بے پناہ سہولتیں اور ماھانہ خطیر رقم ۔ باہر رہ جانے والے حضرات کو وہاں کی حکومتیں ریسرچ کی بے پناہ سہولتیں اور ماھانہ خطیر رقم تنخواہ کی صورت میں دے کر خرید لیتی ہے ۔


    ماضی میں ہم نے پاکستان میں حکومت کے ایک کالج کے ایک ایسے لیکچرر بھی دریافت کئے جنہوں نے خود میٹرک نہیں کیا ہوا تھا۔


    تعلیم اور اعلٰی تعلیم کی پاکستان میں اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ایم اے یا ایم ایس سی کو مناسب تعلیم سمجھا جاتا ہے جبکہ میری ذاتی رائے میں یہ علمی نقطۃ آغاز ہوتا ہے ۔ اور ٹیکنالوجی کی اس قدر تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ( ایوولیشن) پہ مختلف محمکہ جات یا پرائیویٹ ادراوں کی طرف سے ریفریش کورسز وغیرہ کی بھی کوئی سہولت نہیں ہوتی ۔ اور نتیجہ پھر وہی ہے جو ہمارے ہاں ہے۔


    پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معشیت ہے یہاں ہر موضوع کے متعلق کام ہونا باقی ہے ۔ یہاں سیکھنے کے بہت سے مواقع ہیں مگر شرط ہی ہے کہ حکومتیں اپنے ٹیلنٹ کو موقع دیں اور انہیں اس قابل سمجھیں کہ وہ مائکرو اکنامس سے لیکر بڑے بڑے پروجیکٹس جسمیں پورٹس۔ ائرپورٹس، دفاعی سعبہ جات سڑکیں موٹر وے وغیرہ پہ پاکستانی ٹیلینٹ کو اؤل اہمیت دیں اور جہاں ناگزیر ہو وہاں وہاں باہر کی فرمز یا جوہر قابل کو قانون سازی سے پابند کیا جائے کہ ان کے ساتھ پاکستانی جونئیرز ہونگے تاکہ انھیں سیکھنے کا موقع ملے ۔ اور اگر موٹرواے اور پاکستان اسٹیٹ انشورنش کے ضلعی دفاتر تک کورین انجینرؤں سے ڈیزائین کرواتے رہے تو پاکساتی فرمیں اور پاکستانی انجنئیرس جنہیں آپ ناتجربہ کار ہونے کی بناء پر مناسب ٹھیکہ جات نہیں دیتے تو پھر ان پاکستانی لوگوں کا تجربے کے لیے کیا بھارت ٹھیکے دے گا۔؟ یہ صرف ایک مثال ہے ۔ پاکستان ایسی ابواعجمیوں سے بھرا پڑا ہے ۔


    جب تک یہ چلن نہیں بدلیں گے ۔ ہم سراسر نقصان میں رہیں گے

    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ReplyDelete
  2. چلن بدلے گا ۔۔ ہم اور آپ آغاز کریں گے ۔۔ بہت اچھا لگا آپ کا تبصرہ پڑھ کر

    پاکستان آکر آپ ہمیں ضرور آگاہ کیجئےگا

    ReplyDelete
  3. اس روش کی بہت سے لوگ بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں. میری رائے میں ان سب وجوہات کی ماں ”منافقت“ ہے.

    ReplyDelete
  4. جی یہ چلن بدلے گا انشاءاللہ۔
    جب بھی پاکستان کے کسی ُ ُآنے،، پہ فرصت نصیب ہوئی تو ضرور آپ کو مطلع کروؤنگا۔ انشاءاللہ

    ReplyDelete